کیا بلا اس تحریف و خیانت کے رفع یدین نہیں ہو سکتا؟ - محمود حسن جمشیدپوری

نئی تحاریر

2014/10/21

کیا بلا اس تحریف و خیانت کے رفع یدین نہیں ہو سکتا؟

کیا بلا اس تحریف و خیانت کے رفع یدین نہیں ہو سکتا؟

محمد ابو بکر غازی پوری
 
ہم جب غیر مقلدین یعنی اہلحدیث اور بقلم خود سلفی حضرات کی کتابیں پڑھتے ہیں تو ہمیں عجیب عجیب حادثات سے گذرنا پڑتا ہے ، ہم حیران و ششدر رہ جاتے ہیں کہ کتاب و سنت کا نام لے کر عوام کو گمراہ کرنے والا یہ فرقہ دیانت و امانت اور شرافت سے اتنا محروم کیوں ہے، اور خداوند قدوس نے صدق و راستبازی اختیار کرنے کی توفیق اسے کیوں نہیں عطا کی۔

ہمارا اپنا خیال اور مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ اسلاف کے دشمنوں کو امانت و دیانت اور صدق وراستبازی کی دولت سے محروم کر دیا جاتا ہے، اور اس کی مثال ہمارے سامنے شیعوں اور قادیانیوں کی ہے، شیعوں کے یہاں دین کے نام پر دغا کرنا بے ایمانی کرنا، دھوکا اور فریب دینا، جھوٹ بولنا عین ایمانداری اور دینداری اور ان کے دھرم کا جزءہے، اسی طرح قادیانیوں کا معاملہ ہے، ان کے باطل مذہب کی بنیاد بھی جھوٹ ، فریب، افتراءپر ہے، اور یہ دونوں فرقے اسلاف کے شدید دشمن ہیں، جیسا کہ سب کو معلوم ہے، پس اللہ نے ان کو صدق و راستبازی کی دولت سے محروم کر دیا اور جھوٹ بولنا ، فریب دینا ان کے مذہب کا جزبن گیا۔



کچھ اسی طرح کا حال بقلم خود اہلحدیثوں اور سلفیوں کا ہے کہ انہوں نے بھی چونکہ اسلاف کے بارے میں طعن و تشنیع اور سب و شتم کو اپنا شیوہ و شعار بنا لیا ہے بلکہ سب سے بڑا اہلحدیث اور سلفی وہی قرار پاتا ہے جو اسلاف اور ائمہ دین اور فقہائے امت کی شان میں سے زیادہ گستاخ ہو، تو پر وردگار عالم نے ان سے بھی صدق راستبازی اور حق گوئی کی نعمت کو سلب کر لیا اور ان کاکام دغا اور فریب سے اپنے افکار و خیالات کی اشاعت بن گیا ہے، یہ کتاب و سنت کے ساتھ ایسا کھیل کرتے ہیں کہ دیانت وامانت سرپیٹ کر رہ جاتے ہیں اور کتاب و سنت کی ایسی ایسی تاویل کرتے ہیں کہ شیطان بھی ان کو شاباشی دینے لگتا ہے۔

اختلافی مسائل میں سے مشہور مسئلہ نماز میں ابتداءصلوٰة کے علاوہ کچھ اور جگہوں پر رفع یدین کرنے کا بھی ہے، بقول امام ترمذی رحمة اللہ علیہ صحابہ کرام اور تابعین میں سے کچھ لوگوں کا یہ عمل رہا ہے کہ ابتداءنماز کے علاوہ اور بھی کچھ جگہوں پر رفع یدین کرتے تھے، امام شافعی رحمة اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مذہب ہے۔

امام ترمذی رحمة اللہ علیہ رفع یدین والی حدیث ذکر کرنے کے بعد یہ فرماتے ہیں :
وبھذایقول بعض اہل العلم من اصحاب النبیﷺ یعنی نماز میں ابتداءصلوٰة کے علاوہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی رفع یدین کرنے کے کچھ صحابہ قائل تھے، ناظرین غور فرمائیں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ بعض کا لفظ استعمال کر رہے ہیں جس کا ترجمہ اردو میں آپ ”کچھ“ کر لیں یا اسی لفظ کو اردو میں استعمال کریں یعنی یہ کہیں کہ بعض صحابہ قائل تھے، بہر حال ونوں کا حاصل یہی نکلے گا کہ صحابہ کرام کی اکثریت امام ترمذی رحمة اللہ علیہ کے بقول رفع یدین کی قائل نہیں تھی، چنانچہ امام ترمذی رحمة اللہ علیہ نے اس کو لطیف اشارہ میں ظاہر بھی کر دیا ہے چنانچہ جب انہوں نے عدم رفع یدین والی حدیث ذکر کی ہے تو وہاں انہوں نے غیر واحد کا لفظ استعمال کیا ہے۔ فرماتے ہیں :

وبہ یقول غیر واحد من اصحاب النبیﷺ یعنی صرف نماز میں ایک ہی جگہ نماز شروع کرتے وقت رفع یدین کرنا (جیسا کہ احناف اور مالکیہ کا مذہب ہے) بہت سے صحابہ کرام کا مذہب تھا، اور جن کو بھی ذوق عربیت ہے وہ خوب سمجھتے ہیں کہ بعض کا کلمہ عربی زبان میں قلت کو بتلانے کے لئے ہوتا ہے اور جب عدد کا بیان غیر واحد سے ہو تو اس میں کثرت کا معنی پایا جاتا ہے، امام ترمذی نے رفع یدین کی حدیث ذکر کرنے کے بعد بعض کا لفظ استعمال کیا ہے اور عدم رفع یدین کی حدیث ذکر کرنے کے بعد غیر واحد کا لفظ استعمال کیا ہے اس لئے یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ امام ترمذی جیسے عظیم الشان محدث کی تحقیق کے مطابق صحابہ کرام میں رفع یدین کے قائلین کم تھے اور رفع یدین نہ کرنے والے زیادہ تھے، مشہور غیر مقلد عالم مولانا عبدالرحمن مبارکپوری امام ترمذی کے بارے میں فرماتے کہ الترمذی من ائمة ھذا الشان یعنی امام ترمذی فن حدیث کے اماموں میں سے ہیں ایک جگہ اس بات کو اس طرح کہتے ہیں انہ من ائمة الفن غرضیکہ مولانا عبدالرحمن مبارکپوری کو علم حدیث میں امام ترمذی کی امامت اور جلالت قدر و شان کا پورا پورا اعتراف ہے، اور رفع یدین اور عدم رفع یدین کا مسئلہ بھی چونکہ حدیث ہی سے تعلق رکھتا ہے اس وجہ سے امام ترمذی کا اس بارہ میں جو فیصلہ ہے اس پر کسی قسم کا تبصرہ نہیں کیا جا سکتا ۔

اس لئے رفع یدین کے مسئلہ کو بہت زیادہ قابل نزاع بنانا اور خوا مخواہ کی بحثوں کو پھیلانا قطعاً مناسب نہیں ہے اور نہ اہل علم کی شان ہے، جب صحابہ کرام سے دونوں عمل ثابت ہے تو دونوں پر عمل کرنا سنت ہی پر عمل کرنا ہو گا اور یہ ماننا ہو گا کہ آنحضور اکرم ﷺ سے رفع یدین اور عدم رفع یدین دونوں ثابت ہے، اور اسی وجہ سے غیر مقلدین کے مقتدی اور پیشوا میاں نذیر حسین صاحب دہلوی رحمة اللہ علیہ نے اپنے فتاویٰ نذیریہ میں لکھا ہے کہ رفع یدین اور دم رفع یدین کے بارے میں جھگڑا کرنا قرب قیامت کی علامات میں سے ہے، اور یہ دونوں سنت سے ثابت ہے(ج۱ ص ۱ ۴ ۴)

جس مسئلہ کی حقیقت اہل علم کے نزدیک صرف اتنی سی تھی غیر مقلدین نے اسی کو اپنی دھما چوکڑی کا سب سے بڑا میدان بنا لیا، اور حق اور ناحق کا معیار قرار دیا، اور ان تمام ناگفتنیوں اور ناکر دنیوں کا مظاہرہ کیا جن سے علم و دیانت پناہ مانگتے ہیں اور انسانی شرافت توبہ کرتی ہے، اور ان کا طغیان وطوفان اتنا بڑھا کہ صحابہ کرام ائمہ دین کو بھی نہیں بخشا اور اس طغیان و طوفان کی انتہا یہ ہوئی کہ انہوں نے احادیث رسول ﷺ کےساتھ ایسا فریب و دھوکا دہی کا معاملہ کیا کہ شیطان نے کہا واہ ، واہ میں اس کی مثال بلکہ مثالیں ابھی دوں گا۔

پہلے یہ معلوم کیجئے کہ ان کا رویہ اسلاف کے ساتھ کس طرح کا ہوتا ہے تو ابھی آپ کو معلوم ہوا کہ امام ترمذی رحمة اللہ علیہ کو مولانا عبدالرحمن مبارکپوری نے فن حدیث کا امام کہا تھا ، مگر جب انہوں نے عدم رفع یدین والی حدیث ذکر کر کے اس کو حسن قرار دیا تو یہ غیر مقلد محدث صاحب امام ترمذی پر پلٹ پڑے اور صاف صاف کہہ دیا کہ ترمذی کے حسن کہنے پر ہمیں اعتماد نہیں ہے اور یہ صاحب غصہ میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ یہ نہیں کہا کہ ہمیں امام ترمذی کے اس خاص حدیث عدم رفع یدین کو حسن کہنے پر اعتماد نہیں ہے تاکہ کچھ گنجائش بھی رہتی بلکہ مطلقا کہہ دیا کہ اماتحسین الترمذی فلا اعتماد علیہ (تحفہ ص ۰ ۲ ۲ج۱) یعنی ترمذی کے حسن کہنے پر ہمیں اعتماد نہیں ہے۔ یعنی اب ان غیر مقلدمحدث کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہواکہ امام ترمذی رحمة اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں جس جس حدیث کو حسن قرار دیا ہے وہ سب ناقابل اعتبار ہے۔

جی ہاں یہ ہیں عاشقان رسول اور اہلحدیث نام کے بہروپئے اور کتاب و سنت کے عاشق زار جنہوں نے اپنے ایک نشانہ میں ترمذی شریف کی تمام حسن حدیثوں کو کالعدم قرار دیا۔

اور پھریہی نہیں بلکہ مولانا عبدالرحمن مبارکپوری کی جرات اتنی بڑھی کہ حضرت عبداللہ بن مسعود جیسے جلیل القدر صحابی جن کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ علم کا بھرا پیالہ کہا کرتے تھے جن سے عدم رفع یدین والی روایت امام ترمذی رحمة اللہ علیہ نے اپنی سند سے نقل کی ہے، اس جلیل القدر صحابی کے بارے میں مبارکپوری صاحب نے دوسروں کی اندھی تقلید میں کہہ دیا کہ یہ نماز کی بہت سی باتوں کو بھول گئے تھے اسی طرح یہ رفع یدین کو بھی بھول گئے۔ مولانا مبارکپوری کی اس تحقیق کی دا دشیطان نے دی اور کہا واہ واہ۔

اور پھر اس مسئلہ میں غیر مقلدین کی جرات مزید بڑھی اور عہد اول کے عام لوگوں کے بارے میں جن میں صحابہ و تابعین بھی ہیں یہ کہہ دیا کہ یہ لوگ رفع یدین اس لئے نہیں کرتے تھے کہ ان میں نماز کے بارے میں سستی و کاہلی پیدا ہوگئی تھی، غیر مقلدین کے بہت بڑے محدث حافظ محمد گوندلوی فرماتے ہیں۔

لیکن ایسا بھی زمانہ آگیا کہ رفع یدین میں سستی کرنے لگے جس طرح تکبیرات انتقال میں سستی کرنے لگے تھے“ (التحقیق الراسخ ص ۴ ۹)

نیز فرماتے ہیں کہ :

”صحابہ کے زمانہ میں لوگوں نے تکبیرات انتقال چھوڑ دی تھیں یہاں تک کہ عکرمہ جیسے جلیل القدر تابعی کو بھی اس کی سنیت بلکہ اباحت میں شبہ تھا“۔ (ایضاً)

اور آگے تو ان محدث صاحب نے حد ہی کر دی ، صحابہ و تابعین کے زمانہ کے بارے میں آپ کا ارشاد ہوتا ہے :

”غرضیکہ طرح طرح کے تغیر ہو گئے تھے تعدیل ارکان تکبیرات انتقال، اوقات صلوٰة وغیرہ کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا“۔ (ص۴ ۹ ایضاً)

انا اﷲ وانا الیہ راجعونیہ ہے غیر مقلدین حضرات کی تحقیق صحابہ کرام اور تابعین عظام کے بارے میں ۔ اندازہ لگایئے کہ مسئلہ رفع یدین میں ان غیر مقلدین کے غلونے ان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا کہ اسلام کے عہد اول کی روشن تاریخ ہی پر زبردست حملہ کر کے صحابہ کرام و تابعین عظام کے کردار کو مشکوک بنا دیا۔

خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیز کے کردار پر حملہ کرتے ہوئے یہ صاحب فرماتے ہیں :

”بعض خلفائے بنو امیہ کی تو خصوصا یہ عادت ہو چکی تھی کہ وہ اوقات نماز کی چنداں پر واہ نہیں کیا کرتے تھے، ان کی دیکھ دیکھی حضرت عمر بن عبدالعزیز بھی انہی کے نہج پر چلنے لگے “

حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بارے میں ان محدث غیر مقلد صاحب کا یہ زبردست افتراءہے کہ وہ اوقات نماز کی پابندی نہیں کرتے تھے، انہوں نے حوالہ دینے میں زبردست گھپلا کیا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ان کا جھوٹ نہ کھلے انہوںنے فتح الباری سے جو عبارت نقل کی ہے اس کا ترجمہ کرنے کی ان کو ہمت نہ ہو سکی اس لئے کہ اس میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا دور دور پتہ ہی نہیں ہے بلکہ انہیں کے حوالہ والی ایک عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی وقت کی نماز میں صرف ایک دن کبھی تاخیر ہو گئی تھی نہ یہ کہ یہ ان کی معاذ اللہ عادت تھی جیسا کہ محدث گوندلوی صاحب نے ان کے بارے میں یہ تاثر دینا چاہا ہے خود ان کے حوالہ میں یہ عبارت موجود ہے۔

قال ابن عبدالبرظاھر سیاقہ انہ فعل ذلک یوما لاان ذلک کان عادة لہ (ص ۵ ۹)

یعنی حافظ ابن عبدالبر نے کہا کہ عبارة کا ظاہر سیاق یہ بتلاتا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز سے ایک دن تاخیر ہو گئی تھی نہ یہ کہ یہ ان کی عادت تھی۔

بھلا بتلایئے کہ بات کیا ہے اور یہ غیر مقلد محدث صاحب نے اس کو کیسا بتنگڑ بنا کر کے حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسی اسلام کی قابل فخر و نادرئہ روزگار شخصیت کو مجروح اور مطعون کرنے کی کوشش کی ہے اناﷲ وانا الیہ راجعون کسی وجہ سے اگر کسی سے ایک روز نماز کے کسی وقت میں تاخیر ہو جائے جب کہ وہ امیر و والی بھی ہے جس کو مختلف کام پیش آتے رہتے ہیں تو کیا یہ کہنا جائز اور مبنی بر انصاف ہو گا کہ اس کو نماز مخر کر کے پڑھنے کی عادت تھی۔

یہ غیر مقلدین رائی کا پہاڑ اور پر کا کوا کیوں بناتے ہیں اس وجہ سے کہ ان کو اپنے مسلک میں بیجا غلوبہت ہوتا ہے اور غیرمقلدیت کی وجہ سے ان کو اسلاف پر طعن و تشنیع کرنے میں باک اور جھجھک نہیں ہوتی۔

احادیث رسول میں غیر مقلدین علماءکی خیانتیں

اور اپنے مسلک و عقیدہ کا یہی غلوان کو اس پر بھی آمادہ کرتا ہے کہ وہ بلا تکلف احادیث رسول میں خیانتیں کرڈالتے ہیں اور ناواقف عوام کو دھوکہ دیکر اپنی حقانیت کا جھوٹا اظہار کرتے ہیں۔

چونکہ اندازہ سے زیادہ میری گفتگو طویل ہو گئی ہے اس وجہ سے میں یہاں مسئلہ رفع یدین کے سلسلہ کی احادیث رسول کے باب میں ان کے تین بڑے بڑے علماءکی تین خیانتیں ظاہر کرتا ہوں، اور ناظرین کو دعوت عبرت دیتا ہوں، ان سے گذارش کرتا ہوں کہ خدا را آپ بتلائیں کہ احادیث رسول فداہ ابی وامی ﷺ کے باب میں ایسے بے دھڑک اور بے باک اور خائن لوگوں کا شمار جماعت اہلحدیث میں کسی بھی درجہ میں جائز ہو سکتا ہے۔ اور کیا کسی مسلمان کا ضمیر یہ گوارا کرے گا کہ وہ ان غیر مقلدوں کو اہلحدیث کہے؟

لیجئے پہلے مثال انہیں حافظ محمد گوندلوی صاحب کی وہ اپنی اسی کتاب التحقیق الراسخ میں فتح الباری سے یہ عبارت نقل کرتے ہیں

واسلم العبارات قول ابن المنذرلم یختلفوا ان رسول اﷲ ﷺ کان یرفع یدیہ اذا افتتح الصلوة “

اور اس عبارت کو حافظ صاحب نے جو ترجمہ کیا ہے وہ یہ ہے۔

یعنی اگرچہ مذاہب تو پہلی رفع یدین میں مختلف ہیں لیکن اس بارے میں اختلاف نہیں کہ حضور ﷺ رفع یدین کیا کرتے تھے۔

میں حیران ہوں کہ حافظ صاحب نے اس عبارت کا یہ جو ترجمہ کیا ہے اس کی داد کن الفاظ میں دوں، یہ غیر مقلدین کے بہت بڑے محدث ہیں جن کے تقویٰ و دینداری اور علمی قابلیت کی جماعت غیر مقلدین میں دھوم ہے اور ایسے بڑے آدمی نے اتنے زبردست فراڈ والا ترجمہ کیا ہے۔

کیا رفع یدین کا مسئلہ بغیر اس فراڈ و خیانت کے حل نہیں ہو سکتا؟ اس عبارت کا صحیح ترجمہ یہ ہے۔

اور صحیح ترین بات ابن منذر کا یہ قول ہے کہ اس بارے میں لوگوں کا اختلاف نہیں ہے کہ نبی اکرمﷺ جب نماز شروع کرتے تھے تو رفع یدین کرتے تھے۔

دیکھئے حافظ ابن حجرکی عبارت کا مطلب کیا ہے اور حافظ محدث گوندلوی نے اس کو کیا بنا دیا ہے۔

شاید ناظرین یہ سوچتے ہوں کہ حافظ صاحب کو یہ حرکت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ تو میں بتلاتا ہوں، یہ ضرورت اس لئے پیش آئی کہ اس عبارت سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ احناف نے جو صرف ابتداءصلوة میں رفع یدین کو راحج قرار دیا ہے وہ غیر اختلافی بات ہے، یعنی سب کے نزدیک اس پر اتفاق ہے کہ ابتداءنماز میں رفع یدین ہو گا ، اور غیر مقلدین جو تین یا چار جگہ رفع یدین کرتے ہیں وہ اختلافی مسئلہ ہے، صحابہ و تابعین کی ایک جماعت اس کی قائل تھی اور ایک بڑی جماعت اس کی قائل نہیں تھی، جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ علیہ کے بیان سے شروع مضمون میں معلوم ہوا ۔ جب کہ غیر مقلدین کا دعوی یہ ہے کہ رفع یدین کے قائلین تمام صحابہ و تابعین تھے اور رفع یدین کا مسئلہ (نماز میں تین جگہ ہے) صحابہ کے درمیان غیر اختلافی تھا ، چونکہ ابن منذر کا قول غیر مقلدین کے اس دعویٰ کو رد کر رہاتھا اس وجہ سے محدث حافظ گوندلوی صاحب نے ابن منذر کے کلام کا ترجمہ نہایت عیاری سے اور پوری غیر مقلدانہ شان کے ساتھ وہ کیا جس کا نمونہ ناظرین نے دیکھ کر عبرت حاصل کی ہو گی۔

اب آیئے اسی مسئلہ رفع یدین میں غیر مقلدین کے ایک دوسرے بڑے عالم مولانا محمد اسماعیل سلفی کا کارنمانہ ملاحظہ فرمائیں۔

مولانا محمد اسماعیل سلفی کی ایک کتاب رسول اکرمﷺ کی نماز کے نام سے غیرمقلدین حلقہ میں معروف و مشہور ہے، مولانا سلفی نے اس کتاب میں رفع یدین کے مسئلہ کے سلسلہ میں یہ حدیث ذکر کی ہے۔

عن عبداﷲ بن عمر قال ریت النبیﷺ افتتح التکبیر فی الصلوة فرفع یدیہ حین یکبرحتی یجعلھما حذومنکبیہ واذا کبرللرکوع فعل مثلہ واذاقال سمع اﷲ لمن حمدہ فعل مثلہ واذا قال ربنا لک الحمد فعل مثلہ الخ( ص ۸ ۴)

اس حدیث کا صحیح ترجمہ یہ ہے۔ عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا میں نے آنحضرت ﷺ فداہ ابی وامی کو دیکھا جب شروع نماز میں تکبیر کہتے تو تکبیر کے ساتھ ہی کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع کے لئے تکبیر کہتے تو اسی طرح کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمد کہتے تو بھی اس طرح کرتے اور جب ربنالک الحمد کہتے تو بھی اسی طرح کرتے۔

ناظرین آپ اس حدیث کے ترجمہ میں غور فرمائیں اس حدیث میں سجدہ میں جانے سے پہلے چار جگہ رفع یدین کا ذکر ہے، دو جگہ رکوع سے پہلے (نماز شروع کرتے وقت اور رکوع سے پہلے) اور دو جگہ رکوع کے بعد رفع یدین کا ذکر ہے (سمع اﷲ لمن حمدہ کہتے وقت اور ربنالک الحمد کہتے وقت اور چونکہ غیرمقلدین سجدہ سے پہلے صرف تین جگہ رفع یدین کرتے ہیں، اس لئے مولانا محمد اسماعیل صاحب نے نہایت دیانتداری سے اور پوری شان غیر مقلدیت کے ساتھ اس کا ترجمہ یہ کیا ہے۔

”عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا میں نے آنحضورﷺ فداہ ابی وامی کو دیکھا جب شروع نماز میں تکبیر کہتے تو تکبیر کے ساتھ ہی کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع کے لئے تکبیر کہتے تو اسی طرح ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح ہاتھ اٹھاتے اورناظرین ملاحظہ فرمائیں کہ مولانا محمد اسماعیل صاحب نے حدیث کے ترجمہ میں کیسا گھپلا کیا ہے، حدیث کے الفاظ کچھ ہیں اور آپ کا ترجمہ کچھ ہے، حدیث میں سجدہ سے پہلے چار جگہ کا ذکر ہے اور آپ نے اپنے ترجمہ میں اس کو تین جگہ کر کے اس حدیث کو اپنے مطلب کے موافق بنا لیا ہے۔

مولانا محمد اسماعیل سلفی شیخ الحدیث صاحب کے اس ترجمہ کی داد شیطان نے دی اور کہا واہ واہ۔

اب آیئے اس سلسلہ کی تیسری مثال کی طرف امام بخاری رحمة اللہ علیہ کا رفع یدین کے سلسلہ میں ایک بہت مشہور رسالہ ہے جس کا نام جزءرفع یدین ہے، اس کو غیر مقلدوں نے ترجمہ کے ساتھ شائع کیا ہے، ہمارے پاس اس کا پاکستانی اڈیشن ہے اس میں امام بخاری نے یہ حدیث ذکر کی ہے۔

ابن جریج اخبرنی نافع ان ابن عمر رضی اﷲ عنھما کان یکبر بیدیہ حین یستفتح وحین یرکع وحین

یقول سمع اﷲ لمن حمدہ وحین یرفع راسہ من الرکوع وحین یستوی قائما۔

اس حدیث میں سجدہ سے پہلے پانچ جگہ رفع یدین کا ذکر ہے (۱)نماز کے شروع کے وقت(حین یستفتح ) (۲) رکوع کے وقت (حین یرکع ) (۳) سمع اﷲ لمن حمدہ کہتے ہیں (حین یقول سمع اﷲ لمن حمدہ )(۴)رکوع سے سر اٹھاتے وقت (حین یرفع راسہ من الرکوع ) اور رکوع کے بعد بالکل سیدھا کھڑے ہونے پر (حین یستوی قائمًا)

چونکہ یہ حدیث غیر مقلدین کے مطلب کے خلاف تھی اس وجہ سے غیر مقلد مترجم نے وحینسمع اﷲ لمن حمدہ وحین یرفع راسہ من الرکوع وحین یستوی قائما کا یہ فاضلانہ غیر مقلدانہ ترجمہ کیا ہے۔ ناظرین ملاحظہ فرمائیں اور غیر مقلدین کی دیانتداری و ایمانداری کی داد دیں۔ مترجم صاحب ترجمہ فرماتے ہیں۔

”اور جب سمع اﷲ لمن حمدہ کہتے رکوع سے سر اٹھاتے اور سیدھے کھڑے ہو جاتے ........

سبحان اللہ کیسا مبارک ترجمہ ہے۔ دیانت و امانت علم و فقہ، شرافت و مروت سب کا جنازہ نکال کر کے رکھ دیا اور میدان میں خم ٹھوک کر کھڑے ہیں، ہم اہلحدیث ہیں ہم سلفی ہیں، کتاب و سنت پر عمل کرنے والے ہیں

گلزار محمدی کے بلبل نالاں ہیں۔

اسپ تازی شدہ مجروح بزیر پالاں

طوق زریں ہمہ درگردن خرمی بینم

ناظرین کرام آپ نے اندازہ لگایا کہ رفع یدین کا مسئلہ جو صحابہ کرام کے زمانہ سے اب تک اختلافی رہا ہے اور اختلاف بھی اولیٰ اور غیر اولیٰ سے زیادہ کا نہیں ہے، مگر غیر مقلدین کے غلو اور افراط نے اس مسئلہ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، حتی کہ کتاب و سنت اور اسلاف امت کی آبرو کو بھی روند ڈالا ، اور صحابہ کرام اور تابعین عظام کی شخصیات پر بھی ناروا حملے کئے ، ہم اس طرح کے غلو سے ہزار بار پناہ مانگتے ہیں اور خدا سے نہایت عاجزی سے دعا کرتے ہیں کہ بار الٰہی ہمیں تو رشد و ہدایت کے راستہ پر لگائے رکھ ، اور ہمارے کسی عمل کو شیطان کے خوش کرنے کا ذریعہ نہ بنا

وصلی اﷲ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد والہوصحبہ اجمعین


No comments:

Post a Comment