تہجد وتراویح دونوں الگ الگ نمازیں - محمود حسن جمشیدپوری

نئی تحاریر

2016/07/08

تہجد وتراویح دونوں الگ الگ نمازیں

تہجد وتراویح دونوں الگ الگ نمازیں​

تحریر ۔۔۔مولانا ضیا ء الحق مظاہری
منقول :ریاض الجنہ۔جولائی ۲۰۱۴
ماخذ مشروعیت​
(دلیل نمبر ۱) تہجد اور تراویح کے ماخذ مشروعیت جدا جدا ہیں ، تہجد کا ثبوت قرآن کر یم کی آیت ( ومن الیل فتہجد بہ نا فلۃ لک ( پ۱۵) سے ثابت ہے ، جب کہ تراویح شریعت کے دوسرے ماخذ حدیث نبوی سے ثابت ہے (وسنت لکم قیامہ ) معلوم ہوا کہ تراویح کا طریقہ جناب کریم ﷺ نے جاری کیا ہے ،ایک نماز کی مشروعیت قرآن کریم سے ثابت ہے اور دوسری کی مشروعیت حدیث نبوی سے ثابت ہے تو یہ دو نمازیں ایک کسیے ہو سکتی ہیں ؟

مکان مشروعیت​
2۔ تہجد وترایح کی مشروعیت کی جگہ جدا ہے ، تہجد مکہ مکرمہ میں مشروع ہوئی ہے جب کہ تراویح مدینہ منورہ مشروع ہو ئی ہے ۔

زمانہ مشروعیت​
3۔تہجد ہجرت سے قبل اور تراویح بعد الہجرت مشروع ہوئی ۔

کیفیت مشروعیت​
۴۔تہجد پہلے فرض تھی اور ایک عرصہ تک فرض رہی ، بعد میں اسکی فرضیت منسوخ ہو گئی ، سعد بن ہشام کہتے ہیں ۔قلت یا ام المؤمنین حدثنی عن خلق رسول اللہ ﷺ قلت: الست تقرأ القرآن ؟فان خلق رسول اللہ ﷺ کان القرآن ، قال حدثنی عن قیام الیل قالت: الست تقرأ یا ایھا المزمل قال قالت : بلٰی ،قالت: فان اول ھذہ نزلت فقام اصحاب رسول اللہ ﷺ حتیٰ انفخت اقدامہ مھم وحبس خاتمتھا فی السمآء واثنی عشر شھراً ثم نزل آخرھا فصار ۱۸۹۔ ۱۹۱/قیام الیل تطوعاً بعد فریضہ ( ابو داؤد ، باب فی صلاۃ الیل :
سعد : میں نے کہا: اے ام المؤمنین مجھ سے رسول اللہ ﷺ کے خلق کے متعلق بیان کیجئے ،ام امؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فر مایا کہ کیا آپ قرآن نہیں پڑھتے؟ رسول اللہ ﷺ کا خلق قرآن ہے ۔
سعد : میں نے کہا : اے ام المؤ منین ! مجھ سے تہجد کے متعلق عرض مر مائیے ، ام المأ منین نے دریافت فر مایا کیا آپ سورۃ المزمل نہیں پڑھتے ؟
سعد : میں نے کہا : جی ہاں ! میں سورہ یا ایھا المزمل پڑھتا ہوں ، ام المؤ منین نے فرمایا کہ اس سورۃ کا ابتدائی حصہ نازل ہوا ( جس میں تہجد کی فر ضیت ہے ) صحابہ کرام اتنی طویل نماز پڑھتے کہ ان کے پاؤں سوج جاتے ،اور اس سورۃ کا آ خری حصہ بارہ ماہ تک آسمان میں رکا رہا ، پھر بارہ ماہ بعد اس کے آ خری حصہ نازل ہوا ، تو تہجد جو پہلے فرض تھی ،اب نفل میں بدل گئی ۔
فائدہ : اس حدیث سے تین باتیں معلوم ہوئیں ، ایک یہ کہ تہجد کی مشروعیت قرآن کریم سے ہے ، دوسری یہ کہ تہجد کی مشروعیت مکہ مکرمہ میں ہوئی ، کیونکہ سورہ مزمل قبل ہجرت مکہ مرمہ میں نازل ہوئی ہے اور اسی سے تہجد کی مشروعیت ثابت ہے ، تیسری یہ کہ تہجد ایک سال تک فرض رہی ، بعد میں سورہ مزمل کے آخری حصہ کے نازل ہو نے کے ساتھ فر ضیت منسوخ ہو گئی اور تہجد نفل بن گئی ، جب کہ تراویح کبھی بھی فر ض نہیں ہوئی ۔

نبی ﷺ پر فرضیت تہجد کا قول ​
۵۔ علما ء کے ایک قول کے مطابق تہجد نبی ﷺ پر فر ض تھی ، صرف امت کے حق میں تہجد کی فر ضیت منسو خ ہو گئی ( زرقانی شرح مؤطا مالک۱/ ۳۱۱) مگر تراویح آپ ﷺ فرض نہیں تھی۔
سنت مؤکدہ وغیر موکدہ​
۶۔ تہجد سنت غیر مؤکدہ ہے جیسا کہ ابھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں گزرا کہ تہجد پہلے فرض تھی ، بعد میں فرضیت مسنوخ ہو کر نفل ہو گئی ، جب کہ تراویح سنت مؤکدہ ہے ، چنانچہ فقہ کی معتبر کتاب الروض المرابع جو سعودی والتراویح سنہ مؤکدہ“عرب کے نصاب تعلیم میں داخل ہے ،اس کے ص : ۶۵ پر لکھا ہے ،ملا علی قاری فر ماتے ہیں “"والحاصل ان الاصح فیھا سنۃ مؤکدۃ"صحیح ترین بات یہ ہے کہ تراویح سنت مؤکدہ ہے ۔(شرح القایہ ۳۴/۱)ایک نماز سنت غیر مؤکدہ ہے ، دوسری سنت مؤکدہ ہے ۔یہ دونوں نمازیں ایک کیسے ہو سکتی ہیں ؟ تراویح کے سنت مؤکدہ ہو نے پر مذاہب اربعہ کی درج ذیل کتب ملا حظہ کیجئے ۔(البحر الرائق حاشیہ فتاویٰ النوازل:۹۴،حاشیہ الطحاوی :۴۱۱،رد المحتار:۹۳/۱،فتاویٰ تاتار خانیہ :۴۷۵/۱،المہذب ۸۴/۱،حلیۃ العلماء:۱۱۹/۲،الاقناع للشربینی :۴۷۵/۱،تہایۃ الزین:۱۱۴/۱، المغنی لابن القدامہ :۷۹۷/۱)۱۷۱/۱
۷۔تہجد میں اصل یہ ہے کہ بغیر جماعت کے پڑھی جائے ، مگر تراویح میں جماعت سنت مؤکدہ کفایہ ہے (الروضۃ المربع:۶۵) میں ہے "والترایح عشرون رکعۃ تفعل فی جماعۃ مع الوتر "تراویح بیس رکعات ہے ، جو وتروں سمیت جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے ، اور ملا علی قاری لکھتے ہیں "روی الحسن عن ابی حنیفہ والسنۃ فیھا الجماعۃ لکن علی وجہ الکفایہ "حسن نے امام اعظم ابو حنیفہ سے نقل کیا ہے ،تراویح میں جماعت سنت کفایہ ہے ۔
فائدہ حدیث ؑائشہؓ) حدیث عائشہؓ کی گیارہ رکعات والی مشہور حدیث جو تہجد کے بارے میں ہے ،اس سے چند فرق واضح طور پر سمجھ میں آتے ہیں ،ان سے پہلے وہ حدیث ملا حظہ فر مائیں ۔
عن ابی سلمۃ بن عبد الرحمن اخبرہ انۃ سال عائشہ کیف کانت صلوۃ رسول اللہ ﷺ فی رمضان فقالت ما کان رسو اللہ ﷺ یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علیٰ احد عشرۃ رکعۃ یصلی اربعا فلا تسئل عن حسنھن وطولھن ثم یصلی اربعا فلا تسئل عن حسنھن وطولھن ثم یصل ثلثا قالت عائشہ قلت یا رسول اتنام قبل ان تو تر فقال یا عائشہ ان عینی تنا مات ولا ینام قلبی ۔ ( بخاری : ۱۵۴/۱، کتاب التھجد ، باب قیام النبی ﷺ بالیل فی رمضان وغیرہ ، ابو داؤد وصلوۃ الیل )
ابو سلمہ عبد الرحمن نے حضرت عائشہؓ سے پو چھا کہ رمضان میں رسول اللہ ﷺ کی نماز ( تہجد ) کیسے ہو تی تھی ؟ حضرت عائشہؓ نے فر مایا کہ آپ ﷺ رمضان وغیر رمضان میں ۱۱ رکعات پر زیادہ نہ کرتے تھے ، چار رکعات پڑھتے ، پس اس کے حسن اور طول کے بارے نہ پو چھ، پھر آپ ﷺ چار رکعات پڑھتے ،پس ان کے حسن اور طول کے متعلق نہ پو چھ ( یعنی بہت خوبصورت اور طویل ہو تی تھیں ) پھر تین رکعات پڑھتے ، حضرت عائشہؓ فر ماتی ہیں : میں نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں ( پھر بغیر نئے وضو کے وتر پڑھتے ہیں ) آپ ﷺ نے ارشاد فر مایا : اے عائشہؓ بے شک میری دونوں آنکھیں سوتی ہیں ، میرا دل نہیں سوتا ( یعنی نیند سے میرا وضو نہیں ٹوٹتا ،اس لئے نیا نہیں وضو نہیں کرتا ۔

رمضان وغیر رمضان​
۸۔ تہجد رمضان وغیر رمضان یعنی بارہ ماہ پڑھی جاتی ہے ، جب کہ تراویح فقط رمضان میں پڑھی جاتی ہے ،ایک نماز پورے سال اور ایک نماز صرف ایک ماہ تو یہ دونوں نمازیں ایک کیسے ؟ جیسے نماز اشراق پورے سال کی نماز ہے جب کہ نماز عید سال میں صرف دو مرتبہ پڑھی جاتی ہے ، نماز ظہر ہر روز اور نماز جمعہ ہفتہ میں ایک روز تو یہ دونوں نمازیں جدا جدا ہیں ،اسی طرح تہجد پورے سال اور تراویح صرف ایک ماہ لہذا یہ بھی دو جدا جدا نمازیں ہوں گی ۔

چار رکعات اور دو رکعت ​
۹۔حدیث عائشہؓ کے مطابق آپ ﷺ چار چار رکعات اور تین وتر پڑھتے تھے ، جب کہ تراویح میں دو رکعت پڑھنا مسنون ہے ، فقہ حنبلی کی معتبر کتاب الروضۃ المربع صفحہ ۶۵ پر ہے "فعل رکعتین رکعتین "بیس تروایح دو ،دو رکعات کر کے پڑھی جاتی ہیں ،اس پر مزید حوالہ جات مذاہب ار بعہ کے بیان میں ملاحظہ فر مائیں ۔
نیند کا وقفہ​

۱۰۔حدیث عائشہ سے نبی پاک ﷺ کا تہجد اور وتروں کے درمیان سونا ثابت ہے،مگرتراویح اور وتروں کے درمیان سونا ثابت نہیں ہے"اذا دخل رمضان لم یات فراشہ"یعنی جب ماہ رمضان شروع ہو جاتا تو آپ ﷺ رمضان گزرنے تک بستر قدم نہ رکھتے ، نماز تہجد میں نوافل تہجد اور وتروں کے درمیان سونا ثابت ، مگر تراویح اور وتروں کے درمیان سونا ثابت نہیں ، تو یہ دونوں نمازیں ایک کیسے؟

حدیث من قام​

۱۱۔تراویح والی حدیث من قام رمضان۔۔۔۔الخ کو کسی محدث نے تہجد کے باب میں ذکرنہیں کیا،اگر تراویح وتہجد ایک نماز ہوتی تو فضیلت تراویح کی اس حدیث کو تہجد کے باب میں بھی ذکر کیا جاتا ، معلوم ہوا کہ دونوں نمازیں جدا ہیں۔

ترغیب جماعت​

۱۲۔تہجد با جماعت کی تر غیب وتعریف آپ ﷺسے ثابت نہیں ، لیکن تراویح کو جماعت کے ساتھ ادا کر نے کی تر غیب رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے"عن ابی ھریرۃؓ قال خرج رسول اللہ ﷺ واذا ناس فی رمضان یصلون فی ناحیۃ المسجد فقال ما ھولاء قیل ھولاء ناس لیس معھم قرآن وأبی بن کعب یصلی بھم فھم یصلون بصلاتہ فقال رسول اللہ اصابوا او نعم ما صنعو ا(قیام رمضان للمروزی :۱۵۵) "

حضرت ابو ھریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (حجرہ) سے نکلے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ ماہ رمضان میں کچھ لوگ مسجد کے ایک گو شے میں نماز پڑھ رہے ہیں ، آپ ﷺ نے پو چھا کہ یہ لوگ کون ہیں؟ عرض کیا گیا : یہ ایسے لوگ ہیں کہ قرآن ان کو یاد نہیں اور ابی ابن کعبؓ ان کو نماز پڑھا رہے ہیں اور وہ لوگ ابی ابن کعبؓ کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر فر مایا : انہوں نے درست کیا ، یا یوں فرمایا کہ انہوں نے اچھا کام کیا۔

اہتمام جماعت​

۱۳۔نماز تہجد میں جماعت کثیر کو شامل کر نے کا اہتمام آپ ﷺ سے ثابت نہیں ، لیکن نماز تراویح کو جماعت کثیرہ کے ساتھ ادا کرنے کا اہتمام آپ ﷺ سے ثابت ہے ،اس سلسلے میں دو حدیثیں ملاحظہ کیجئے ۔
عن عائشہؓ عنھا قالت: کان الناس یصلون فی مسجد رسول اللہ ﷺفی رمضان بالیل اوزاعاً۔۔۔۔الخ
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ لوگ رمضان شریف کی ایک رات مسجد نبوی میں متفرق جماعتیں بنا کر نماز پڑھ رہے تھے ، جن لوگوں کو قرآن کاکچھ حصہ یاد تھا وہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے ، کسی کے ساتھ پانچ آدمی ہیں کسی کے ساتھ چھ ہیں اور کسی کے پیچھے اس سے کم اور کسی کے پیچھے اس سے زیادہ اور وہ ان قرآن خواں لوگوں کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے ہیں ، حضرت عائشہؓ فر ماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مجھ کو حکم دیا کہ میں حجرے کے دروازے پر چٹائی لٹکادوں ، چنانچہ میں نےچٹائی لٹکادی ، پس رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز کے بعد حجرہ سے تشریف لائے ،اس وقت مسجد میں جتنے لوگ موجود تھے سب آپ ﷺ کے پاس اکھٹےہوگئے ،آپ ﷺ نے ان کو رات کے وقت دیر تک نماز پڑھائی ۔( قیام رمضان للمروزی :۱۵۳)

۲ؔحضرت ابو ذر غفاریؓ سے روایت ہےکہ "صمنا مع رسول اللہ ﷺفی رمضان۔۔۔۔۔۔الخ"ہم نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ رمضان میں روزے رکھے ،آپ ﷺنے ہمیں تراویح نہ پڑھائی حتی کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ۲۳/اور ۲۵/ کی رات کو نماز پڑھائی،پھر ۲۷/کی رات کو اپنے گھر والوں کو جمع کیا،اور لوگ بھی جمع ہوئے اور آپ ﷺ نے طویل نماز پڑھائی۔(اسی وجہ سے بعد میں خلیفہ راشد حضرت عمرؓ نے بیس تراویح با جماعت کا مستقلا اہتمام کیا اور اس سنت کو دائمی طور پر جاری کیا جو آج تک جاری ہے)

باب جدا جدا​

۱۴۔محدثین حضرات نےتہجد اور تراویح کے جدا جدا باب قائم کئے ہیں جو ان کے الگ الگ نماز ہونے کی دلیل ہے اور اگر یہ دونوں نمازیں ایک ہیں تو ہر ایک کے جدا جدا باب قائم کرنے کی کیا ضرورت ؟ کتب حدیث میں دونوں نماوں کے جدا جدا باب ملاحظہ کیجئے۔

نام کتاب:
صحیح بخاری ۔باب تہجد :باب فضل قیام الیل : ۱۵۱/۱،باب تراویح:باب فضل من قیام الیل رمضان: ۲۶۹/۱

صحیح مسلم: باب صلوۃ الیل ۲۵۲/۱۔ باب التر غیب فی قیام رمضان وھو التراویح ۲۵۹/۱

سنن ابی داؤد: باب فی صلوۃ الیل :۱۸۸/۱۔ باب قیام شہر رمضان:۱۹۶/۱

سنن ترمذی : باب فی صلوۃ الیل : ۹۸/۱ ۔ باب ما جأء فی قیام شہر رمضان: ۱۶۶/۱

سنن نسأئی : باب قیام الیل : ۹۴۔ باب ما جأء فی قیام شہر رمضان :۳۰۷/۱

سنن اب ماجہ : باب ما جأء فی قیام الیل :۹۴ ۔ باب ما جأء فی قیام شہر رمضان: ۹۴

مؤطا امام مالک:باب فی صلوۃ الیل :۹۹۔باب فی قیام رمضان :۹۷

مؤطا امام محمد :باب صلوۃ الیل :۱۱۹۔ باب قیام شہر رمضان :۱۴۱

مشکوٰۃ شریف : صلوۃ الیل ۱۰۵/۱۔باب قیام شہر رمضان ۱۱۴/۱

ریاض الصالحین:باب قضل قیام الیل :۳۶۲/۱۔باب استحباب: قیام رمضان وھو التراویح: ۳۶۷

صحیح ابن حبان: فصل فی قیام الیل : ۱۱۲/۵۔ فصل فی التراویح : ۱۰۷/۵

مجمع الزاوئد: باب فی صلوۃ الیل : ۵۱۹/۲۔ باب قیام رمضان : ۴۰۱/۳

سنن الکبریٰ مام بیہقی: باب فی قیام الیل : ۴۴۹/۲۔باب فی قیام شہر رمضان : ۴۹۱/۲

جمع الفوائد: صلوۃ لیل : ۲۰۳/۱۔ قیام رمضان والتراویح: وغیرہ ذالک:۲۰۶/۱

مختصر قیام الیل للمروزی: قیام الیل : صفحہ۲/تا ۱۴۹۔قیام رمضان:صفحہ ۱۵۰تا ۱۷۸​

بلوغ المرام ،؛ صلوۃ التطوع: ۸۳۔قیام رمضان ;۱۵۲​

محدثین عظام کے تہجد وتراویح کے الگ الگ باب قائم کرنے سے معلوم ہوا کہ ان حضرات کے نزدیک تہجد اور تراویح علحدہ علحدہ نماز یں ہیں ، ورنہ الگ الگ باب قائم کرنے کا کیا مطلب ہے ؟

رمضان کی شرط​

۱۵۔ عہد نبوی میں چاند نظر نہ ّأیا"فارادو ان لا یصوموا ولا یقوموا" تو انہوں نے روزہ نہ رکھنے اور قیام نہ کرنے (یعنی تراویح نہ پڑھنے ) کا ارادہ کر لیا، اچانک وادی حرا سے ایک اعرابی نے حاضر خدمت ہو کر چاند دیکھنے کی شہادت ; چنانچہ اس کے ایمان واعتقاد کی تصدیئق کر نے کے بعد نبی کریم ﷺ کے حکم پر حضرت بلالؓ نے اعلان کیا "ان یصوا وان یقوموا" لوگو ! روزہ رکھو اور تراویح پڑھو ۔( دار قطنی :۱۵۹/۱)

معلوم ہوا کہ نماز تراویح ماہ رمضان کے چاند نظر آنے کے ساتھ مشروط ہے ، جب کہ تہجد ہلال رمضان کے ساتھ مشروط نہیں ، وہ سارے سال پڑھی جاتی ہے ۔

مذکورہ بالا تحریرات سے یہ چیز پوری وضاحت کے ساتھ سامنے ّگئی کہ تہجد وترایح دونوں الگ الگ نمازیں ہیں دونوں کو ایک کہنا یا تو تعصب ، ہٹ دھرمی اور یا پھر کم علمی کی وجہ سے ، اس کے علاوہ بھی اور بہت سے ایسے واضح دالائل ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں الگ الگ نمازیں ہیں، لیکن اختصار کے پیش نظر اسے ترک کیا جاتا ہے،اور ماننے والے کیلئے اتنا ہی کافی ہے ، اور نہ ماننے والوں کیلئے یہ کیا دفتر بھی بیکار ہے، اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو دین کی صحیح فہم وسمجھ عطا فر مائے اور اہل سنت والجماعت کے نقش قدم پر چلنے کی تو فیق عطا فر مائے ۔

No comments:

Post a Comment